Friday, January 6, 2023

Naqsh Daafe Bandish Nikah نقش دافع بندش نکاح


 

Surah Muzammil Ke Mazameen Ka Mukhtasar Taruf


از۔شیخ الروحانیات صوفی محمد عمران رضوی القادری

الاوفاق۳؎AL-AUFAAQ#3

سورہ مزمل شریف جس میں نبی اکرم ﷺ کی شب و روز کی عبادات کا ذکر ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سورہ مزمل شریف کی  تین روزہ زکات کا طریقہ  بتاوں اس سے قبل ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سورۃ  کے مضامین کا مختصر تذکرہ کروں،قرآن مقدس کی یہ واحد سورت ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شب و روز کی  عبادت وظائف و اذکار بالخصوص قیام اللیل اور تہجد وغیرہ کا بیان ہوا ہے، اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ  فرما کر بتا دیا گیا  کہ دن کے مقابلے رات کے وقت عبادت کرنا زیادہ دلجمعی اور موافقت کا سبب ہے وجہ ظاہر ہے کہ رات کے وقت جب کہ دنیا والے محو خواب ہوتے ہیں اس وقت ماحول پر سکون ہو جاتا ہے اور انسان یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوکر دل جمعی کے ساتھ اس کی عبادت کر سکتا ہے ، جب کہ دن کے وقت انسان کو بہت سارے دوسرے کام بھی ہوتے ہیں لہذا  ارشاد ہوا اِنَّ لَكَ فِی النَّهَارِسَبْحًا طَوِیْلًاؕ اس سورت کے شروع میں قم الیل الا قلیلا فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر قیام اللیل نمازِتہجد فرض کیا گیا تھا ،حکم یہ تھا کہ رات کے تھوڑے حصے میں آرام فرما کر باقی آدھی رات یا اس سے کچھ کم قیام میں گذارو ہوا یوں کہ بعض صحابہ جن کو آدھی رات یادو تہائی رات کا اندازہ نہیں ہوتا وہ پوری رات قیام اللیل فرماتے اس ڈر سے کہ کہیں واجب کی مقدار سے کچھ کم نا ہوجائے یہاں  تک کہ ان حضرات کے پاؤں  سوج جاتے تھے  یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا حتی کہ رب تبارک و تعالی نے امت محمدیہ پر کرم فرمایا اور سورہ مزمل شریف کی اخیر آیت کے اس حصے ’’فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ‘  تو جتنا قرآن میسر ہو پڑھو سے اس امت پر ہمیشہ کے لئے نماز تہجد کی فرضیت منسوخ فرما دی  

اُمّت کے حق میں  تَہَجُّد کی فرضِیَّت منسوخ ہو چکی ہے

اب رہی یہ بات کہ تَہَجُّد کی فرضِیَّت کس کے لئے منسوخ ہوئی اس کے بارے میں  علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرما تے ہیں : ا سلام کے ابتدائی دور میں  سورۂ مُزَّمِّل کی ان آیات کی وجہ سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ کی اُمّت پر تہجد کی نماز فرض تھی،پھر تخفیف کی گئی اور پانچ نمازوں  کی فرضِیَّت سے امت کے حق میں  تہجد کا وجوب منسوخ ہو گیا اور ان کے لئے تہجد کی نماز ادا کرنا مُستحب ہو گیا جبکہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اس کا وجوب باقی رہا،اس کی دلیل یہ آیتِ مبارکہ ہے:

’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ‘‘(بنی اسرائیل:۷۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور رات کے کچھ حصے میں  تہجد پڑھویہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے۔

یعنی آپ پر اللّٰہ تعالیٰ نے جو اور عبادات فرض کی ہیں  ان کے ساتھ ساتھ مزید تہجد کی نماز پڑھنا بھی خاص آپ کے لئے فرض ہے۔ (خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۴، ۴/۳۲۱)

جمہور مفسرین اور فقہاء کے نزدیک سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرض نمازوں  کے علاوہ نمازِ تہجد کی فرضِیَّت بھی باقی رہی جبکہ امت کے حق میں  منسوخ ہوئی اور دلائل کی رُو سے بھی یہی صحیح ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ قولِ جمہور ،مذہب ِمختار ومنصور ،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کے حق میں  (تہجد کی) فرضِیَّت (کا) ہے۔ اسی پرظاہر ِقرآنِ عظیم شاہد اور اسی طرف حدیث ِمرفوع وارِد۔

قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی  ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘ اللّٰہ تعالیٰ کافرمان ہے: ’’اے چادر اوڑھنے والے! رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔(ت)

وَقَالَ اللہ تَعَالٰی : ’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ‘‘ اور ارشاد فرمایا: ’’اور رات کے کچھ حصے میں  تہجد پڑھو۔( بنی اسرائیل۷۹)

ان آیتوں  میں  خاص حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کو امر ِالٰہی ہے، اور امرا ِلٰہی مفید ِوجوب، اور اللّٰہ تعالیٰ کا ’’نَافِلَةً‘‘ فرمانا اس وجوب کے مُنافی نہیں  کیونکہ ’’نَافِلَةً‘‘  کا معنی ہے زائدہ، اب اس آیت کامعنی یہ ہوگا کہ آپ کے فرائض یادرجات میں  یہ اضافہ ہے کہ آپ پر یہ لازم واجب ہے کیونکہ فرائض سب سے بڑے درجے اور فضیلت پر فائز کرنے کاسبب بنتے ہیں ، بلکہ اس کی تائید اللّٰہ تعالیٰ کے اس ارشاد ’’ لَکَ ‘‘ سے ہورہی ہے۔ امام ابنِ ہمام فرماتے ہیں  کہ بعض اوقات مجرور (یعنی حرف ’’ک‘‘) کے ساتھ مُقَیَّدکرنا اسی بات کافائدہ دیتاہے (یعنی یہ فرائض میں  آپ کے لئے اضافہ ہے) کیونکہ مُتَعارَف نوافل صرف آپ ہی کے لئے نہیں  بلکہ اس میں  آپ اور دیگر لوگ مُشْتَرَک ہیں ۔(ت)( فتاوی رضویہ، باب الوتر والنوافل، ۷/۴۰۲-۴۰۳)

 

Thursday, January 5, 2023

Naqsh e Musallas Ka Taruf نقشِ مثلث کا تعارف (Introduction Of Naqsh Musallas)

 

از۔شیخ الروحانیات صوفی محمد عمران رضوی القادری

الاوفاق۲؎AL-AUFAAQ#2

نقشِ مثلث کا تعارف

امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نےنقشِ مثلث کو قمر سے منسوب کیا ہے جبکہ امام احمد بونی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے منسوب بہ زحل بتایا ہے ،اورامام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں ہر دو موقف کا ذکر فرمایا اور نقشِ مثلث کے اسرار و رموز کو اس شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا کہ یہ نقش ان کے نام سے منسوب ہو گیا ،اس نقش کی تاریخ اتنی ہی پرانی جتنی کہ حضرتِ انسان کی تاریخ ہے ،یہ نقش حضرتِ حوا علیہا السلام کا ہے اور ان سے کامل نسبت رکھتا ہے آپ دیکھِں گے نقشِ مثلث  کے خانوں میں اسمِ حوا کس خوبصورتی سے ظاہر ہے

۷۸۶

و۶

ا۱

ح۸

ز۷

ہ۵

ج۳

ب۲

ط۹

د۴

اس نقش کا عدد طبعی ۱۵ ہے اسے پندرہ کا نقش بھی کہتے ہیں ، اس نقش کے تین ضلعیں ہیں انہیں اگر عدد طبعی میں ضرب دیا جائے تو ابوالبشرحضرتِ آدم علیہ السلام کا عدد نکل کر آئے گا  پتا چلا یہ نقش حضرت آدم علیہ السلام سے نسبتِ کلی رکھتا ہے جس طرح ماں حواء علیہا السلام حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کی گئیں ٹھیک اسی طرح ۴۵ یعنی عدد آدم سے ۱۵ یعنی عددِ حواء کا ظہور ہوا ،پندرہ کا عدد مجموعہ ہے مرتبہ احاد کا یعنی ایک سے لے کر نو تک کے ہندسوں کو جب ہم باہم جوڑتے جائیں گے تو حاصل جمع  پینتالیس ہوگا،جس طرح انسانی نسل کی اصل حضرتِ آدم و حضرتِ حواء علیہا السلام ہیں اسی طرح تمام تر اعداد کی اصل مرتبہ احاد یعنی ایک سے نو تک کے ہندسے ہیں اور اسی طرح تمام تر نقوش و تعویذات کی اصل اور ان کا مبداء نقشِ مثلث ہے ،یہ نقش جملہ نقوش کی ماں ہے، اس نقش کے اعداد  حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کی عصاء پر موجود تھے ، خاتم سلیمانی جو  حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے  نام سے مشہور ہے وہ در اصل نقش مثلث ہی کی ایک شکل ہے اور اس کی برکت سے آپ کی حکومت پوری دنیا میں جن و انس حیوش و طیور بلکہ ہوا پر قائم تھی ان کے بعد یہ خاتم حضرت آصف بن برخیاء کو ملی تھی پھر یہ مختلف قوموں میں منتقل ہوتی رہی حتیٰ کہ امام غزالی نے اسے بلخ کے ایک بزرگ سے حاصل کر لیا

 


Hazrat Sharfuddin Yahya Maneri Ke Chand Aurad Wazaif حضرت شرف الدین یحی منیری کے چند اوراد و وظائف


 

Wednesday, January 4, 2023

NAQSH E MUSALLAS ISM E AZAM HAI نقشِ مثلث اسمِ اعظم ہے


از۔شیخ الروحانیات صوفی محمد عمران رضوی القادری

الاوفاق۲؎AL-AUFAAQ#2

نقشِ مثلث اسمِ اعظم ہے

نقش مثلث اسم اعظم ہے وہ اس طرح کہ اس میں کھیعص حمعسق کے اعداد جملِ صغیر پوسیدہ ہیں اور ہر ایک حرف کا جملِ صغیر مثلث کے ایک خانے کے لئے مختص ہے،کھیعص میں ک کا جملِ صغیر ۲ ہےاسے دوسرے خانے میں رکھا  ہ کا جملِ صغیر ۵ ہے اسے پانچویں خانے میں رکھا   ی کا جملِ صغیر ۱ ہےاسے پہلے خانے میں رکھا   ع کا جملِ صغیر ۷ ہے اسے ساتویں خانے میں رکھا   ص کا جملِ صغیر ۹ ہے اسے نویں خانے میں رکھا   اسی طرح حمعسق میں ح کا جملِ صغیر ۸ ہے اسے آٹھویں خانے میں رکھا   م کا جملِ صغیر ۴ ہے  اسے چوتھے خانے میں رکھا  ع کا جملِ صغیر ۷ مکرر آیا  جو کہ ساتویں خانہ کے لئے مختص ہےس کا جملِ صغیر ۶ ہے اسے چھٹے خانے میں ق کا جملِ صغیر ایک ہے لیکن مثلث کے خانوں میں صرف تیسرا خانہ باقی ہے جس میں عدد ۳ لکھا جائےگا اس لئے ق کا جملِ صغیراگرچہ ایک ہوا لیکن اس کے دو نقطوں کو بھی شامل کرینگے تو اس کا جملِ صغیر ۳ ہوگا اسے تیسرے خانے میں رکھا   اور طرح نقش مثلث کھیعص حمعسق کے ساتھ کامل ہوا ،یہاں ایک بات کسی کے ذہن میں آسکتی ہے کہ ق کا عدد ۳ جبرا لیا گیا ہے تو اس وسوسے کا علاج یوں کیا جا ئے گا کہ کھیعص حمعسق میں صرف دو حروف ایسے ہیں جن میں نقطے ہیں اور دو نقطے ہیں  اور ان دونوں حروف کا جملِ صغیر ایک  بنتا ہے اور نقطوں کے شمار سے تین چونکہ ی مرتبہ میں دہائی کا عدد ہے اور دہائی اکائی سے قریب تر ہے اس لئے ی کو مثلث کے خانہ اول کے لئے مختص کیا اور ق کا تعلق چونکہ سینکڑہ سے ہے اور سینکڑہ ۳ عدد کا ہوتا ہے اس لئے ق سے تیسرا خانہ پر کیا گیا ملاحظہ کریں

Monday, January 2, 2023

Naqsh Musallas Ki Zakaat Ke Faide نقشِ مثلث کی زکات کے فائدے


 

از۔شیخ الروحانیات صوفی محمد عمران رضوی القادری

الاوفاق۲؎

نقشِ مثلث کی زکات کے فائدے

 بے شمار ہیں ،فقیرِ قادری کہتا ہے کہ یہ محض مثلث کی زکات نہیں بلکہ مرتبہ احاد کی بھی زکات ہے جیسے حروفِ تہجی کی زکات اکبر ادا کرنے سے عامل ہر قسم کے عزائم کا عامل ہو جاتا ہے  اور اجابت کے لئےصرف پڑھنے کی دیر ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح مثلث کی زکات ادا کرنے کے بعد اس کا عامل اعداد کی روحانی قوت کا حامل ہوجاتا ہے اور اس کی قلم سے نقوش میں پر کئے گئے اعداد حاجت براری اور شفاء رسانی میں باذن اللہ تیزی سے اثر کرتے ہیں یہ ایک ایسا نقطہ میں نے اجاگر کر دیا اگر اہلِ بصیرت اس میں غور کریں گے تو عجیب عجیب رمزیں کھلیں گی ان شاء اللہ ،نقشِ مثلث کی زکات میں حروفِ مقطعات کھیعص حمعسق کی زکات بھی پوشیدہ ٹھہری  ، اس نقش کے اندر قائم مفردات جلالی ا ج ھ ز ط اور مفردات جمالی ب د و ح کی بھی زکات ادا ہو گئی اور عامل خیر و شر کے کاموں میں متصرف ہوا ، اس نقش کی زکات ادا کرنے والا خاتم سلیمانی کا بھی عامل ہو گیا الگ سے اسکی ریاضت کی ضرورت نہیں اور نا ہی لوح مزوجات و مفردات کی ریاضت کی حاجت ۔

Surah Muzammil Ki Sah Roza Zakat سورہ مزمل شریف کی سہ روزہ زکات


 

از۔شیخ الروحانیات صوفی محمد عمران رضوی القادری

الاوفاق۳؎

سورہ مزمل  شریف کی سہ روزہ  زکات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سورہ مزمل شریف کی  تین روزہ زکات کا طریقہ  بتاوں اس سے قبل ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سورۃ  کے مضامین کا مختصر تذکرہ کروں،قرآن مقدس کی یہ واحد سورت ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شب و روز کی  عبادت وظائف و اذکار بالخصوص قیام اللیل اور تہجد وغیرہ کا بیان ہوا ہے، اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ  فرما کر بتا دیا گیا  کہ دن کے مقابلے رات کے وقت عبادت کرنا زیادہ دلجمعی اور موافقت کا سبب ہے وجہ ظاہر ہے کہ رات کے وقت جب کہ دنیا والے محو خواب ہوتے ہیں اس وقت ماحول پر سکون ہو جاتا ہے اور انسان یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوکر دل جمعی کے ساتھ اس کی عبادت کر سکتا ہے ، جب کہ دن کے وقت انسان کو بہت سارے دوسرے کام بھی ہوتے ہیں لہذا  ارشاد ہوا نَّ لَكَ فِی النَّهَارِسَبْحًا طَوِیْلًاؕ اس سورت کے شروع میں قم الیل الا قلیلا فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر قیام اللیل نمازِتہجد فرض کیا گیا تھا ،حکم یہ تھا کہ رات کے تھوڑے حصے میں آرام فرما کر باقی آدھی رات یا اس سے کچھ کم قیام میں گذارو ہوا یوں کہ بعض صحابہ جن کو آدھی رات یو دو تہائی رات کا اندازہ نہیں ہوتا وہ پوری رات قیام اللیل فرماتے اس ڈر سے کہ کہیں واجب کی مقدار سے کچھ کم نا ہوجائے یہاں  تک کہ ان حضرات کے پاؤں  سوج جاتے تھے  یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا حتی کہ رب تبارک و تعالی نے امت محمدیہ پر کرم فرمایا اور سورہ مزمل شریف کی اخیر آیت کے اس حصے ’’فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ‘  تو جتنا قرآن میسر ہو پڑھو سے اس امت پر ہمیشہ کے لئے نماز تہجد کی فرضیت منسوخ فرما دی  

اُمّت کے حق میں  تَہَجُّد کی فرضِیَّت منسوخ ہو چکی ہے

اب رہی یہ بات کہ تَہَجُّد کی فرضِیَّت کس کے لئے منسوخ ہوئی اس کے بارے میں  علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرما تے ہیں : ا سلام کے ابتدائی دور میں  سورۂ مُزَّمِّل کی ان آیات کی وجہ سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ کی اُمّت پر تہجد کی نماز فرض تھی،پھر تخفیف کی گئی اور پانچ نمازوں  کی فرضِیَّت سے امت کے حق میں  تہجد کا وجوب منسوخ ہو گیا اور ان کے لئے تہجد کی نماز ادا کرنا مُستحب ہو گیا جبکہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اس کا وجوب باقی رہا،اس کی دلیل یہ آیتِ مبارکہ ہے:

’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ‘‘(بنی اسرائیل:۷۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور رات کے کچھ حصے میں  تہجد پڑھویہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے۔

یعنی آپ پر اللّٰہ تعالیٰ نے جو اور عبادات فرض کی ہیں  ان کے ساتھ ساتھ مزید تہجد کی نماز پڑھنا بھی خاص آپ کے لئے فرض ہے۔ (خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۴، ۴/۳۲۱)

جمہور مفسرین اور فقہاء کے نزدیک سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرض نمازوں  کے علاوہ نمازِ تہجد کی فرضِیَّت بھی باقی رہی جبکہ امت کے حق میں  منسوخ ہوئی اور دلائل کی رُو سے بھی یہی صحیح ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ قولِ جمہور ،مذہب ِمختار ومنصور ،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ

کے حق میں  (تہجد کی) فرضِیَّت (کا) ہے۔ اسی پرظاہر ِقرآنِ عظیم شاہد اور اسی طرف حدیث ِمرفوع وارِد۔

قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی  ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘ اللّٰہ تعالیٰ کافرمان ہے: ’’اے چادر اوڑھنے والے! رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔(ت)

وَقَالَ اللہ تَعَالٰی : ’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ‘‘ اور ارشاد فرمایا: ’’اور رات کے کچھ حصے میں  تہجد پڑھو۔( بنی اسرائیل۷۹)

ان آیتوں  میں  خاص حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کو امر ِالٰہی ہے، اور امرا ِلٰہی مفید ِوجوب، اور اللّٰہ تعالیٰ کا ’’نَافِلَةً‘‘ فرمانا اس وجوب کے مُنافی نہیں  کیونکہ ’’نَافِلَةً‘‘  کا معنی ہے زائدہ، اب اس آیت کامعنی یہ ہوگا کہ آپ کے فرائض یادرجات میں  یہ اضافہ ہے کہ آپ پر یہ لازم واجب ہے کیونکہ فرائض سب سے بڑے درجے اور فضیلت پر فائز کرنے کاسبب بنتے ہیں ، بلکہ اس کی تائید اللّٰہ تعالیٰ کے اس ارشاد ’’ لَکَ ‘‘ سے ہورہی ہے۔ امام ابنِ ہمام فرماتے ہیں  کہ بعض اوقات مجرور (یعنی حرف ’’ک‘‘) کے ساتھ مُقَیَّدکرنا اسی بات کافائدہ دیتاہے (یعنی یہ فرائض میں  آپ کے لئے اضافہ ہے) کیونکہ مُتَعارَف نوافل صرف آپ ہی کے لئے نہیں  بلکہ اس میں  آپ اور دیگر لوگ مُشْتَرَک ہیں ۔(ت)( فتاوی رضویہ، باب الوتر والنوافل، ۷/۴۰۲-۴۰۳)

طریقہ ابتدائی زکات سورہ مزمل شریف

سورہ مزمل شریف غنائے ظاہری و باطنی بالخصوص غنائے قلب کے لئے اکسیر ہے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ روزانہ سورہ مزمل چالیس مرتبہ بعد نماز عشاء کے پڑھا کرتے تھے اور اپنے مریدوں شاگردوں کو حصول غنا کے لئے یہی وظیفہ تعلیم فرماتے  بے شمار بزرگان دین اس عظیم سورت کے عامل گذرے ہیں فقیر قادری اس کی ابتدائی زکات جو کہ سہ روزہ ہے احباب کے لئے سپرد قرطاس کرتا ہے یہ زکات با موکل ہے اس میں پرہیز جلالی و جمالی لازمی ہے اتوار کے دن سے پرہیز بجا لائیں پھر جب بدھ کا دن آئے روزہ دار ہوں اور صبح مشتری کی ساعت میں سفید کاغذ پر مع بسم اللہ پوری سورہ مزمل ایک دائرے میں لکھیں اور جہاں سورت ختم ہو اس سے متصل یہ عزیمت لکھیں اللہم انی اسئلک ان تسخرلی خدام ھذہ السورۃ الشریفۃ بحق لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ،اس نقش کو سنبھال کر قرآن میں جہاں سورہ مزمل شریف ہے وہاں رکھ چھوڑے،سب نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کریں عشاء کے بعد ہلکہ کھانا کھا کر تھوڑا آرام کر لیں پھر اٹھ کر وضو بنائیں اور حجرے میں داخل ہو جائیں یہ حجرہ ایسا ہو کہ یہاں تین روز کسی کو بھی آنے نہ دیں اس حجرہ میں دوران عمل تین وقت عمدہ بخور روشن کریں نماز فجر کے فورا بعد ،بعد نماز عصر اور عمل شروع کرنےسے پہلے ،دو رکعت نماز نفل ادا کریں ہر دو رکعت میں تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کر سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح طیبہ کو نذر کریں اور عمل میں کامیابی کی دعاء کرکے چہار قل و آیۃ الکرسی پڑھ کر اپنا حصار کرلیں اب نقش کو سامنے مصلے پر رکھ کر سات مرتبہ درود تنجینا پڑھ کر تعوذ و تسمیہ کے ساتھ سورہ مزمل شریف کا ورد شروع کریں اور ایک نششت میں ۱۴۸ ایک سو اڑتالیس مرتبہ پڑھیں ،پڑھنے کے دوران نظر کو اس دائرے پر مرکوز رکھنا ہے تعداد مکمل کرنے کے بعد کاغذ پر دم کریں اور قرآن مقدس میں رکھ دیں ،اسی ترکیب سے تین شب مسلسل عمل بجا لائیں

پھر ہفتہ کے دن علی الصبح اس کاغذ کو لوہے کے چھوٹے ٹکڑے یا پتھر میں باندھ کر سوا کیلو آٹا جس میں شکر اور کچھ لونگ ہو ، میں لپیٹ کر ایسے بڑے تالاب یا دریا میں ڈالے یا کسی سے ڈلوائے جس میں مچھلیاں خوب ہوں اور جہاں دریا نا ہو تو اس کاغذ کو اچھی طرح موم جامہ جامہ کرے اور کسی چڑی مار سے کوئی خوشنما پرندہ خرید یں اور قیمت خوش دلی سے ادا کریں پھر  اس پرندے کے داہنے بازو میں باندھ کر اسے آزاد کر دے ،اب سورہ مزمل شریف آپ کے عمل میں آچکا ہے اور اس کے خدام موکلین میں سے کوئی ایک خادم ہمیشہ غیبی طور پر آپ کی مدد کو حاضر رہےگا عمل قائم رکھنے کے لئے روزانہ سات مرتبہ سورہ مزمل شریف اول آخر کوئی کا سا درود سات مرتبہ ورد میں رکھیں  اور فقیر کو دعاء میں یاد رکھیں آمین

ہشت بہشت میں ہے حضرت خوا جہ نظام الدین چشتی رحمة اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام معہ چوبیس ہزار فرشتو ں کے سورة مزمل کو ریشم پر قلم نور سے لکھا ہو الے کر آئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر بڑی تعظیم و تکریم سے ہا تھ میں لیکر بو سہ دیا اور سر پر رکھی اور فرما یا اے جبرائیل علیہ السلام فرمان الہٰی کیا ہے ؟انہو ں نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اگر میں اس سورة کو پہلے پیغمبر وں کے عہد میں نازل کر تا تو اس کی برکت سے ان کا ایک بھی گناہ گار نہ ہو تا اور اس کی برکت سے ان سب کو بخش دیتا۔ پس جو بندہ خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہے، اس کو فرض نماز کے بعد پڑھے گا اسے ہر حر ف کے بدلے میں ایک لا کھ نیکی عطا ہو گی اور اسی قدر گناہ اس کے نامہ اعمال سے مٹا دیے جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ جنت میں داخل ہو گا اس سورة کے پڑھنے والے کو جنت میںہزار محل سبز زمر د کے بنے ہوئے ملیں گے جن میں ہر ایک میں ہزار ہز ار چھوٹے محل ہو ں گے اور جن میں ہزار حوریں ہو ں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے میرے امتیو ! تم اس سورئہ کو اپناورد مقرر کر لو اور اسے ہر روز دس مر تبہ پڑھا کر و۔ جو ہر روز اسے دس مر تبہ پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسے بُرے آدمیوں اور آفا ت کے شر سے محفوظ رکھے گا اورہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پنا ہ میں ہو گا اور اس سورئہ کی برکت سے اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچے گی اور جو کسی کا م کے لیے اسے پڑھے گا وہ مہم سر انجام ہو گی اور اس سورئہ کا ثوا ب اگر اہل آسمان اور اہل زمین لکھنے لگیں تو بھی نہیں لکھ سکتے ، نیز حضرت محبو ب الہٰی نو ر اللہ مر قدہ نے فرمایا، جو شخص سورئہ مزمل کو پڑھے گا، اور اپنے پا س لکھ کر رکھے گا، اس پر مصیبت نا زل نہ ہو گی۔ اللہ اور مخلو ق کی نظرمیں ذی عزت ہو گا۔ حق تعالیٰ اس کو اپنا ولی بنا دے گا اور اگر اس سورة کو پڑھ کر پتھر پر دم کر ے گا عجب نہیں وہ سونا بن جا ئے گا۔ ا س کے پڑھنے والے پر زہر اور جا دو کا اثر نہ ہو گا۔ ہر بلا سے محفوظ رہے گا۔ بہتے پانی پرپڑھے گا، تو اللہ کے حکم سے پانی پرکھڑا ہو جائے گا۔ قیدی کی رہا ئی کے لیے پڑھے گا، تو قید سے رہا ہو جائے گا ،فقیر قادری عرض کرتا ہے سورہ ،مزمل شریف کی تعریف میں سرکار محبوب الہی کے  ارشادات بہت کافی ہیں ،اب ہم اس عظیم سورہ کے خواص چاہے جتنا لکھیں وہ آپ ہی کے ارشادات کا چربہ ہوگا ۔

Sunday, January 1, 2023

Dam Kar Jaiz Hai دم کرنا جائز ہے


 

الاوفاق۲؎

دم کرنا جائز ہے

 

عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: بَیْنا رسول اللّہ صَلّی اللہ علیہ وسَلّمَ ذاتَ لَیلۃٍ یُصلِّیْ فَوَضَعَ یدَہ علی الأرضِ فلدغتْہ عقرَبٌ فَنَاولَہا رسولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِنعْلہ فقَتَلہا ، فلَمّا اِنْصرَفَ قال: لعنَ اللّہُ العقربَ، ما تدَعُ مُصَلِّیاً،ولا غیرَہ أونبیّاً وغیرَہ ٗ ثم دعا بمِلْحٍ وماءٍ فجعلہ فی إناءٍ ثمّ جعلَ یصُبُّہ علٰی إصبعہ حیثُ لدغتْہ ویمسحُہا ، ویعوِّذہا بالمعوَّذَتیْن۔

 (مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب الطب والرقی ، باب الفصل الثالث ، الحدیث ۴۵۶۷، ج۲ ، ص ۱۴۹)

 ترجمہ:

    روایت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ اس درمیا ن کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم ایک رات نماز پڑھ رہے تھے آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا تو بچھو نے کاٹ لیا (۱)تب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم نے اپنے جوتہ شریف سے اسے مارا حتیّٰ کہ اسے قتل کردیا پھر جب فارغ ہوئے تو فرمایا اللہ عزوجل بچھو پر لعنت کرے نمازی غیر نمازی نبی غیر نبی کسی کو نہیں چھوڑتا (۲)پھر نمک اور پانی منگایا پھر اسے برتن میں ڈالا پھر اسے اپنی انگلی پر ڈالنے لگے جہاں بچھو نے کاٹا تھا اسے پونچھنے لگے اور اس پر سورہ فلق وناس سے دم کرنے لگے ۔(۳)

وضاحت :

    (۱)آپ کے بائیں ہاتھ کی انگلی پر کاٹ لیا جسم نبی پر زہر ،ڈنک ،تلوار اثر کر سکتی ہے یہ واردات بشریت پر وارد ہوتی ہے

    (۲)بعض روایات میں ہے کہ اسے مار کر فرمایا کہ بچھو موذی ہے اسے حل وحرم ہر جگہ ماردو موذی وہ جانورہے جو اپنے نفع کے بغیر انسان کا نقصان کردے لہٰذا کھٹمل، جوں ،موذی نہیں کہ انسان کو کاٹتی ہے مگر اپنا پیٹ بھرنے کیلئے۔

     (۳)یہ ہے دوا اور دعا کا اجتماع نمک وپانی بھڑ(تنبوڑی)اور بچھو وغیرہ کے کاٹے کیلئے بہت ہی مفیدہے ۔ یمسحھا سے معلوم ہوا کہ دم کرتے وقت بیماری کی جگہ پر ہاتھ پھیرنا سنت ہے بعض روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم ایسے مریض پر سورت فاتحہ پڑھ کر دم فرماتے۔     (مراۃ ،ج۶،ص۲۴۷)

 

 

Featured Post

AL AUFAAQ (Vol-14) الاوفاق

Book Your Copy Now +91-9883021668