Monday, June 8, 2020

ترک جلالی و جمالی و فلسفہ Tark e Jalali o Jamali Ka Falsafa

ترک جلالی و جمالی کا فلسفہ

سوال

*السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ امید ہے کہ حضور بخیر ہونگے میرا سوال یہ ہے یہ جو عملیات  میں ترک جلالی و جمالی کی جو شرط لگائی جاتی ہے اس کے تعلق سے کافی پڑھا اور سنا ہے مگر جب میں اس مضمون پر پہنچاتو کافی پریشان ہوا یہ جو میٹر لکھا ہوا ہے اس کی حقیقت کیا ہے کیا واقعی میں ترک جلالی اور جمالی عملیات کی دنیا میں ضروری ہے یا نہیں اگر بندہ اللہ کا ذکر صدق دل سے کرتا ہے تو کیا اس کو روحانیت حاصل نہیں ہوئی? اور اگر کے جلالی اور جمالی کرنے کے باوجود پھر سے دل میں صداقت اور ذہین شفاف نہ ہو تو کیا عملیات کام کریں گے یا ہمارا  چلاہ ضائع ہوجائے گا برائے مہربانی تھوڑی سی اس مضمون پر نظر عنایت ہو جائے تو انشاءاللہ کافی سارے سوالات حل ہوجائیں گے اور ہم آپ کے مشکور ہوں گے*

*حضرت مولانا شہادت خان برکاتی شیرانی ناگور راجستھان انڈیا*

 

 

جواب از صوفی محمد عمران رضوی القادری 

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

ترکِ حیوانات جلالی و جمالی کا حاصل ملائکہ سے تشبہ پیدا کرنا ہے اور یہ تشبہ اس وقت پیدا ہوگا جب ہم ہر اس چیز کو ترک کر دیں گے جو ملائکہ کے متنفر ہونے کا باعث ہوں اور اس کی اصل احادیث سے ثابت چنانچہ فرمایا پیاز لہسن یا اس قسم کی بدبودار اشیاء کھا کر مسجد میں حاضر نا ہو کہ اس سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے  بخاری و مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو اس درخت بودار سے کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کہ ملٰیٔکہ اُس چیز سے اذیت پاتے ہیں جس چیز سےآدمی کو اذیت پہنچتی ہے اسی طرح سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم  جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ  تشریف لائے تو آپ  حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں قیام پزیر، ہوئے ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے میں لہسن کی بوٹی ڈالی گئی حضور نے اسے تناول نہیں فرمایا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے جب عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے بالکل بھی نہیں کھایا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اس کھانے میں اُس بوٹی کی بو آ گئ تھی اور میں وہ شخص ہوں جو اپنے رب سے سرگوشیاں کرتا ہے لیکن تم اسے کھاوتمہارے لئے جائز ہے ،آداب دعاء میں اعلی حضرت عظیم البرکت رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا  جب قصدِ دعا ہو پہلے مسواک کر لے کہ اب اپنے رب سے مناجات کریگا، ایسی حالت میں رائحہ متغیّرہ (یعنی منہ کی بدبو)سخت ناپسند ہے خصوصاً حقّہ پینے والے، خصوصاً تمباکو کھانے والوں کو اس ادب کی رعایت ذکر ودعا ونماز میں نہایت اہم ہے، کچا لہسن پیاز کھانے پر حکم ہوا کہ مسجد میں نہ آئےوہی حکم یہاں بھی ہوگا، مع ہذا حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:''مسواک رب کو راضی کرنے والی ہے۔' اور ظاہر ہے کہ رضائے رب باعثِ حصولِ اَرب ہے (اللہ تعالیٰ کی رضا ، مراد ملنے کا سبب ہے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ عام حالت میں بھی بندہ مومن کو ذکر اللہ کے لئے جزوی طور پر ہی سہی ترک جلالی و ترک مکروہات  کا حکم ہے اور یہ حکم  ہر قسم کے ذکر کے لئے عام ہے لیکن جب ذکر و اشغال اعمال تصریفیہ کہ طور پر بجا لایا جائے گا تو اب پیاز لہسن کے استعمال کا ترک کے ساتھ  کلیۃً  حیوانی غذائیں اور  فعل حیوانی کا ترک بھی لازم قرار پائے گا تاکہ ملائکہ سے کامل تشبہ پیدا ہوسکے  لہذا دعوت و اعمال میں محض صدق نیت کافی نہیں اگرچہ ذکر الہی کے لئے صدق نیت و خلوص قلبی کی ضرورت ایسے ہی ہے جیسے زندہ رہنے کے لئے جسم کو روح کی ضرورت ہوتی ہے اگر روح نہیں جسم مردہ ہے اسی طرح اگر خلوص و صدق نہیں تو ذکر و اشغال بے اثر لیکن اعمال و دعوات تصریفیہ کے لئے ترک جلالی و جمالی ایک بالکل الگ چیز ہے  دعوت ملکیہ کے لئے جتنی ضرورت صدق نیت کی ہے اسی قدر حاجت ترک جلالی و جمالی کی بھی ہے  ترک حیوانات کو پرہیز اور صدق نیت و صفاءقلبی کو دوا سے تعبیر کر سکتے ہیں کبھی تو صرف دوا سے شفاء مل جاتی ہے اور کبھی پرہیز کرنا بھی لازمی قرار پاتا ہے بلکہ دونو لازم و ملزوم ہو جاتے ہیں اب اگر کوئی یہ کہے کہ میں دوا تو پابندی سے کھا رہا ہوں پھر پرہیز کی کیا ضرروت تو اسے سمجھایا جائے گا ٹھیک ہے دوا سے آپ کو فائدہ ہوگا لیکن  بعض مرض میں مکمل فائدے کے لئے مرض بڑھنے کی وجہ پر بھی قدغن لگانا ضروری ہوتا ہے اس لئے آپ سے پرہیز کا بھی کہا گیا ، انسان جو کہ انواع اقسام کے عوارضاتِ نفسی و قلبی و روحی میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کی وجہ قوتِ شہویہ اور قوت غضبیہ ہیں اورحیوانی غذائیں ان قوتوں کو امداد فراہم کرتی ہین ان سے انسان کے اندر صفات بہیمیہ و سبعیہ پیدا ہوتی ہیں تو ان صفات کو مرض جانئے اور حیوانی غذاوں کو امراض قلبی و روحانی  میں اضافے کی وجہ سمجھئے اس لئے مشائخ کرام فرمایا کرتے ہیں کہ عام حالت میں بھی چالیس دن لگاتار گوشت مت کھایا کرو کہ اس سے تمہارا دل سخت ہو جائے گالہذا  عاملین ِ با صفاء نے جو یہ قیود ترک حیوانات کے لگائے ہیں اس میں حکمت یہی ہے کہ انسان دوران چلہ نفسانی و شہوانی قوت سے مغلوب نہ ہو جائے اور ایسی مزموم صفات سے  حتی الوسع خالی ہو اور جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دعوتِ ملکیہ اور اعمالِ تصریفیہ میں ملائکہ سفلیہ ارضیۃ جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں ان سے تشبہ پیدا کرے یہ اس لئے فرمایا تاکہ صاحب دعوت کی تدبیر اصل نظامِ عالم کی تدبیر کے موافق ہوجائے لہذا ترک حیونات جلالی و جمالی اور ہر قسم کی بدبو دار چیز کھانے سے پرہیز کا تعلق ملائکہ سے تشبہ پیدا کرنا ہے، نفحات الانس میں میں نے پڑھا تھاکہ ایک ولی اللہ جن کے پاس فرشتے آیا کرتے تھے انہوں نے ایک مرتبہ کسی چیونٹی کو مار دیا اس کے بعد فرشتوں کا آناموقوف  ہو گیا  یہ اسی وجہ سے ہوا کہ اس بزرگ کو ملائکہ سے کامل تشبہ نہ رہا اس لئے دوران چلہ کسی بھی جاندار کو مارنے کی ممانعت کی جاتی ہے اور اسے محرمات احرامی کہتے ہیں   امید ہے کہ اس قدر تفصیل سے ترک جلالی و جمالی کا فلسفہ سمجھ آگیا ہو گا  اللہ تعالی ہم سب کو علم نافع اور خیر کثیر عطاء فرمائے آمین  

(اس مضمون کو قدرے تفصیل سے وڈیوکلپ میں سمجھایا گیا ہے اس کے لئےہمارے یوٹیوب چینل پر جائیں)

 

Featured Post

AL AUFAAQ (Vol-14) الاوفاق

Book Your Copy Now +91-9883021668